اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
کسی کے درد محبت نے عمر بھر کے لیے
خدا سے مانگ لیا انتخاب کر کے مجھے
یہ ان کے حسن کو ہے صورت آفریں سے گلہ
غضب میں ڈال دیا لا جواب کر کے مجھے
وہ پاس آنے نہ پائے کہ آئی موت کی نیند
نصیب سو گئے مصروف خواب کر کے مجھے
مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے
میں ان کے پردۂ بے جا سے مر گیا مضطرؔ
انھوں نے مار ہی ڈالا حجاب کر کے مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |