اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا

اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا
by آسی غازی پوری

اسی کے جلوے تھے لیکن وصال یار نہ تھا
میں اس کے واسطے کس وقت بے قرار نہ تھا

کوئی جہان میں کیا اور طرح دار نہ تھا
تری طرح مجھے دل پر تو اختیار نہ تھا

خرام جلوہ کے نقش قدم تھے لالہ و گل
کچھ اور اس کے سوا موسم بہار نہ تھا

وہ کون نالۂ دل تھا قفس میں اے صیاد
کہ مثل تیر نظر آسماں شکار نہ تھا

غلط ہے حکم جہنم کسے ہوا ہوگا
کہ مجھ سے بڑھ کے تو کوئی گناہ گار نہ تھا

وفور بے خودیٔ بزم مے نہ پوچھو رات
کوئی بجز نگہ یار ہوشیار نہ تھا

لحد کو کھول کے دیکھو تو اب کفن بھی نہیں
کوئی لباس نہ تھا جو کہ مستعار نہ تھا

تو محو گل بن و گلزار ہو گیا آسیؔ
تری نظر میں جمال خیال یار نہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse