اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں
اس ارض کے تختہ پر سنسار ہے اور میں ہوں
موہوم ہوا تو کیا پر یار ہے اور میں ہوں
پڑتی ہے نظر جیدھر وہ یار ہے اور میں ہوں
ہے کون سوا میرے دل دار ہے اور میں ہوں
میں یار کنے قاصد بھیجا تو ہے پر شاید
لے نامہ اگر آیا ریبار ہے اور میں ہوں
موڑوں گا نہیں منہ کو میں عشق کے میداں سے
اس یار کے ابرو کی تلوار ہے اور میں ہوں
اب دیکھیے کیا نبٹے سینہ ہے سپر اپنا
وہ خنجر مژگاں کا خوں خار ہے اور میں ہوں
جب سے بہ صنم خانہ کی میں نے قدم بوسی
سو طرح کی زاہد سے تکرار ہے اور میں ہوں
راہب نے مرے قشقہ صندل کا لگایا ہے
ناقوس ہے گھنٹہ ہے زنار ہے اور میں ہوں
نفع و ضرر دنیا دنیا ہی پہ میں چھوڑا
اب عشق کا اے یارو بیوپار ہے اور میں ہوں
حیراں میں ہوں اے یارو کس واسطے افریدیؔ
رسوائی بہ ہر کوچہ بازار ہے اور میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |