اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا

اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا
by مضطر خیرآبادی

اس بات کا ملال نہیں ہے کہ دل گیا
میں اس کو دیکھتا ہوں جو بدلے میں مل گیا

جو حسن تو نے شکل کو بخشا وہ بول اٹھا
جو رنگ تو نے پھول میں ڈالا وہ کھل گیا

ناکامیٔ وفا کا نمونہ ہے زندگی
کوچے میں تیرے جو کوئی آیا خجل گیا

قسمت کے پھوڑنے کو کوئی اور در نہ تھا
قاصد مکان غیر کے کیوں متصل گیا

مجھ کو مٹا کے کون سا ارماں ترا مٹا
مجھ کو ملا کے خاک میں کیا خاک مل گیا

مضطرؔ میں ان کے عشق میں بے موت مر گیا
اب کیا بتاؤں جان گئی ہے کہ دل گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse