اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
اس بت کو نہیں ہے ڈر خدا سے
بگڑی بندے سے گر خدا سے
گو خلق بھی جانے حال میرا
پوشیدہ نہیں مگر خدا سے
ہے ہم سے تو آہ آہ کرنا
دینا اس کو اثر خدا سے
ہم نے اسے اپنا سود جانا
پہنچا بھی اگر ضرر خدا سے
دیکھا ہے میں جب سے وہ بت شوخ
پھر گئی ہے مری نظر خدا سے
بازیچے میں ہے ادھر وہ مشغول
اور بن رہی ہے ادھر خدا سے
کچھ خوب نہیں یہ خود نمائی
ہاں اے بت شوخ ڈر خدا سے
ہے بیر خدائی اور خودی میں
اتنی بھی خودی نہ کر خدا سے
یہ سارے خدا شناس ہیں لیک
دیتا نہیں کوئی خبر خدا سے
اے مصحفیؔ کچھ کمی نہیں واں
جو چاہے سو مانگ پر خدا سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |