اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
اے شوق ہرزہ تاز کہاں لے چلا مجھے
یہ درد دل ہی زیست کا باعث ہے چارہ گر
مر جاؤں گا جو آئی موافق دوا مجھے
اس ذوق ابتلا کا مزہ اس کے دم سے ہے
سب کچھ ملا ملا ہو دل مبتلا مجھے
دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے
یہ دل سے دور ہو نہ دکھائے خدا وہ دن
ظالم ترا خیال ہے دل سے سوا مجھے
رنج و ملال و حسرت و ارمان و آرزو
جانے سے ایک دل کے بہت کچھ ملا مجھے
میں جانتا ہوں آپ ہیں مست اپنے حال میں
بیخودؔ نہیں ہے آپ سے مطلق گلا مجھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |