Author:بیخود بدایونی
بیخود بدایونی (1857 - 1912) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- یوں ہی رہا جو بتوں پر نثار دل میرا
- ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
- شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا
- ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا
- رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے
- پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا
- نالے میں کبھی اثر نہ آیا
- کیوں مرا حال قصہ خواں سے سنو
- کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا
- کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
- جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں
- اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
- حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں
- حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا
- ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں
- گردش چشم یار نے مارا
- درد دل میں کمی نہ ہو جائے
- آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |