اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
سب چھوڑ ہم کو غم میں نہ جانے کدھر گئے
جو اس پری کو شیشۂ دل میں کرے تھے بند
وے علم عاشقی کے سیانے کدھر گئے
فوجیں جنوں کی دیکھ کے یک بارگی سبھی
اس ملک دل سے عقل کے تھانے کدھر گئے
معلوم ہے کسو کو کہ وہ آج شعلہ خو
ہم کو جلا کے آگ لگانے کدھر گئے
ڈھونڈا بہت پا ہم نے نہ پایا انہوں کا کھوج
دل کو چرا کے ہم سے چھپانے کدھر گئے
حاتمؔ کے دل کو مصرع اول نے خوں کیا
اس دکھ میں ہائے یار یگانے کدھر گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |