اس زمانے میں نہ ہو کیوں کر ہمارا دل اداس
اس زمانے میں نہ ہو کیوں کر ہمارا دل اداس
دیکھ کر احوال عالم اڑتے جاتے ہیں حواس
بس رہا ہے بو سے تیری جان من ایسا دماغ
بے دماغ ہم کو رکھے ہے باغ میں پھولوں کی باس
جس طرف جاوے تو اے خورشید رو سایہ کی طرح
ہر قدم میں بھی ہوں تیرے ساتھ ساتھ اور پاس پاس
تشنگی سے چاہ کی تیری نہیں سیراب دل
ہے مثل مشہور مستسقی کی نئیں بجھتی ہے پیاس
حق سے ملنا گیروے کپڑوں اوپر موقوف نئیں
دل کے تئیں رنگو فقیری یہ ہے اور سب ہے لباس
جوں جوں تو ساغر پیے ہے غیر کی مجلس کے بیچ
توں توں اے بد مست دل میں میرے آتا ہے ہراس
کنہ ذات حق کو کیا پاوے کوئی حاتمؔ کبھو
سب کے عاجز ہیں یہاں وہم و گماں فہم و قیاس
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |