اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی

اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
by نظام رامپوری

اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
جو کہے سن کے کیا کرے کوئی

ہم بھی کیا کیا کہیں خدا جانے
گر ہماری سنا کرے کوئی

ہائے وہ باتیں پیار کی شب وصل
بھولے کیا یاد کیا کرے کوئی

لوگ کیوں پوچھتے ہیں حال مرا
ذکر کس بات کا کرے کوئی

درد دل کا علاج ہو کس سے
یوں مسیحا ہوا کرے کوئی

بے وفا گر کہوں تو کہتے ہیں
کیا ہر اک سے وفا کرے کوئی

جائے گر جاں تو سو ہیں تدبیریں
جائے گر دل تو کیا کرے کوئی

کوئی اپنی خطا تو ہو معلوم
عذر کس بات کا کرے کوئی

دل کا کچھ حال ہی نہیں کھلتا
گر مرض ہو دوا کرے کوئی

کبھی میں نے بھی کچھ کہا تم سے
نہ سنو، کچھ کہا کرے کوئی

تم سے بے رحم پر نہ دل آئے
اور آئے تو کیا کرے کوئی

سیکڑوں باتیں کہہ کے کہتے ہیں
پھر ہمیں کیوں خفا کرے کوئی

کوئی کب تک نہ دے جواب تمہیں
چپکا کب تک سنا کرے کوئی

شکوہ اس بت کا ہر کسی سے نظامؔ
اس سے کہہ دے خدا کرے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse