Author:نظام رامپوری
نظام رامپوری (1819 - 1872) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- فکر یہی ہے ہر گھڑی غم یہی صبح و شام ہے
- دل پہ جو گزرے ہے میرے آہ میں کس سے کہوں
- ہو کے بس انسان حیراں سر پکڑ کر بیٹھ جائے
- جو چپ رہوں تو بتائیں وہ گھنگنیاں منہ میں
- ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا
- جب تو میں ہوں آہ میں ایسا اثر پیدا کروں
- مزا کیا جو یوں ہی سحر ہو گئی
- صاف باتوں میں تو کدورت ہے
- واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
- مجھ سے کیوں کہتے ہو مضموں غیر کی تحریر کا
- اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
- کہیے گر ربط مدعی سے ہے
- وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
- کہنے سے نہ منع کر کہوں گا
- جو سرگزشت اپنی ہم کہیں گے کوئی سنے گا تو کیا کریں گے
- کہتے ہیں سن کے ماجرا میرا
- گر دوستو تم نے اسے دیکھا نہیں ہوتا
- خبر نہیں کئی دن سے وہ دق ہے یا خوش ہے
- یاں کسے غم ہے جو گریہ نے اثر چھوڑ دیا
- صدمے یوں غیر پر نہیں آتے
- یہ عجب تم نے نکالا سونا
- ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
- چھیڑ منظور ہے کیا عاشق دلگیر کے ساتھ
- کیوں کرتے ہو اعتبار میرا
- حال دل تم سے مری جاں نہ کہا کون سے دن
- ترے آگے عدو کو نامہ بر مارا تو کیا مارا
- تصور آپ کا ہے اور میں ہوں
- ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
- وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
- تمہیں ہاں کسی سے محبت کہاں ہے
- دیکھ اپنے قرار کرنے کو
- مری سانس اب چارا گر ٹوٹتی ہے
- بگڑنے سے تمہارے کیا کہوں میں کیا بگڑتا ہے
- کسی نے پکڑا دامن اور کسی نے آستیں پکڑی
- کیوں ناصحا ادھر کو نہ منہ کر کے سوئیے
- وہ ایسے بگڑے ہوئے ہیں کئی مہینے سے
- اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
- کبھی ملتے تھے وہ ہم سے زمانہ یاد آتا ہے
- نہیں سوجھتا کوئی چارا مجھے
- محفل میں آتے جاتے ہیں انساں نئے نئے
- تم سے کچھ کہنے کو تھا بھول گیا
- دیکھیے تو خیال خام مرا
- گر کہوں مطلب تمہارا کھل گیا
- اس قدر آپ کا عتاب رہے
- دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
- انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |