اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے
اس عشق و جنوں میں نہ گریبان کا ڈر ہے
یہ عشق وہ ہے جس میں ہمیں جان کا ڈر ہے
آساں نہیں دریائے محبت سے گزرنا
یاں نوح کی کشتی کو بھی طوفان کا ڈر ہے
بازار سے گزرے ہے وہ بے پردہ کہ اس کو
ہندو کا نہ خطرہ نہ مسلمان کا ڈر ہے
دل خون میں تڑپے ہے ترے تیر نگہ سے
پر اس پہ بھی ظالم ترے پیکان کا ڈر ہے
دربان بھی یاں کچے گھڑے پانی بھرے ہے
وہ ہیں ہمیں یاں جن کو کہ دربان کا ڈر ہے
وہ شوخ کہیں وقت نماز آن نہ نکلے
اے مصحفیؔ مجھ کو اسی شیطان کا ڈر ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |