اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
کیا ہی دلچسپ مجھے وہ نظر آئی مہندی
نہ رہا ایک بھی چور اس کے کہیں ہاتھوں میں
ایسی چترائی سے کافر نے لگائی مہندی
بیٹھے بیٹھے جو مزاج آ گیا رنگینی پر
گوندھ کر لالے کی پتی میں ملائی مہندی
اس نفاست کا میں کشتہ ہوں کہ اک تو اس نے
بنگلے پانوں سے ہاتھوں میں بندھائی مہندی
تس پہ کمبخت کی یہ دوسری سگھڑائی دیکھ
باندھ رومالوں سے بسمے کی بچائی مہندی
اور ہشیاری یہ سن سوتے سے جو چونک پڑا
کھول پھرتی سے وہیں جلد چھڑائی مہندی
بعد ازاں طاق سے اک چھوٹے سے شیشے کو اتار
عطر میں ہاتھوں سے مل مل کے بسائی مہندی
مصحفیؔ کیوں نہ دعا دیوے کہ اس کو تو نے
اک غزل اور بھی رنگین لکھائی مہندی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |