اس پری رو نے نہ مجھ سے ہے نباہی کیا کروں
اس پری رو نے نہ مجھ سے ہے نباہی کیا کروں
سر کدھر پٹکوں کدھر جاؤں الٰہی کیا کروں
وصل کا دن ہے ولے آنکھوں کے میرے سامنے
ہے کھڑی شب ہائے ہجراں کی سیاہی کیا کروں
تختہ تختہ ہو گیا طوفاں میں آ کر جہاں
تم سے اے یار بیاں اپنی تباہی کیا کروں
ہے تو وہ دشمن پہ محضر دیکھ کر خون کا مرے
سوچتا ہے اس پہ میں اپنی گواہی کیا کروں
ٹکڑے ٹکڑے دل ہوا جاتا ہے پہلو میں ہوسؔ
ذبح کرتی ہے بتاں کی کم نگاہی کیا کروں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |