Author:مرزا محمد تقی ہوسؔ
مرزا محمد تقی ہوسؔ (1766 - 1855) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- یہی کہتی لیلیٔ سوختہ جاں نہیں کھاتی ادب سے خدا کی قسم
- اس پری رو نے نہ مجھ سے ہے نباہی کیا کروں
- تو جو پڑا پھرتا ہے آج کہیں کل کہیں
- شوق خراش خار مرے دل میں رہ گیا
- رنگ گل شگفتہ ہوں آب رخ چمن ہوں میں
- نت جی ہی جی میں عشق کے صدمے اٹھائیو
- نہ پایا کھوج برسوں نقش پائے رفتگاں ڈھونڈھے
- مژدہ یہ صبا اس بت بے باک کو پہنچا
- ماتھے پہ لگا صندل وہ ہار پہن نکلے
- میں نہ سمجھا بلبل بے بال و پر نے کیا کہا
- میں کہا بولنا شب غیر سے تھا تم کو کیا
- کیا مزا ہو جو کسی سے تجھے الفت ہو جائے
- کیا دن تھے جب چھپ چھپ کر تم پاس ہمارے آتے تھے
- جوانی یاد ہم کو اپنی پھر بے اختیار آئی
- جنگلوں میں جستجوئے قیس صحرائی کروں
- ہم سے وارفتہ الفت ہیں بہت کم پیدا
- ہوئے عازم ملک عدم جو ہوسؔ تو خوشی یہ ہوئی تھی کہ غم سے چھٹے
- ہوئے آج بوڑھے جوانی میں کیا تھے
- ہرگز نہ مرے محرم ہمراز ہوئے تم
- ہنستے تھے مرے حال کو جو یار دیکھ کر
- دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے
- بے وجہ نہیں گرد پریشاں پس محفل
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |