اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہئے
اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہئے
قیس لیلیٰ کا ہے لیلیٰ چاہئے
اب جو کچھ کرنا ہے کرنا چاہئے
آج ہی سے فکر فردا چاہئے
ان بتوں سے دل لگانے کے لیے
سچ ہے پتھر کا کلیجہ چاہئے
دیکھنا ان کا تو قسمت میں نہیں
دیکھنے والے کو دیکھا چاہئے
وہ نہیں آئے تو وعدے پر نہ آئیں
اے اجل تجھ کو تو آنا چاہئے
مجھ سے نفرت ہے تو نفرت ہی سہی
چاہئے غیروں کو اچھا چاہئے
خلد والوں کو دکھانے کے لئے
اک ترے کوچہ کا نقشہ چاہئے
آ کے اب جاتا کہاں ہے تیر ناز
تجھ کو میرے دل میں رہنا چاہئے
توڑ کر بیدمؔ بت پندار کو
دیر کو کعبہ بنانا چاہئے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |