Author:بیدم وارثی
بیدم وارثی (1876 - 1936) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- یوں گلشن ہستی کی مالی نے بنا ڈالی
- یہ ساقی کی کرامت ہے کہ فیض مے پرستی ہے
- یہ خسروی و شوکت شاہانہ مبارک
- اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہئے
- طور والے تری تنویر لیے بیٹھے ہیں
- تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
- تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
- سینہ میں دل ہے دل میں داغ داغ میں سوز و ساز عشق
- شادی و الم سب سے حاصل ہے سبکدوشی
- سہارا موجوں کا لے لے کے بڑھ رہا ہوں میں
- قصر جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے
- قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
- پاس ادب مجھے انہیں شرم و حیا نہ ہو
- پردے اٹھے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ہے
- پہلے شرما کے مار ڈالا
- نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے
- نہ سنو میرے نالے ہیں درد بھرے دار و اثرے آہ سحرے
- نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاق بت خانہ
- نہ کنشت و کلیسا سے کام ہمیں در دیر نہ بیت حرم سے غرض
- مجھ سے چھپ کر مرے ارمانوں کو برباد نہ کر
- مجھے شکوہ نہیں برباد رکھ برباد رہنے دے
- مجھے جلووں کی اس کے تمیز ہو کیا میرے ہوش و حواس بچا ہی نہیں
- مبارک ساقیٔ ستاں مبارک
- میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش
- میں یار کا جلوا ہوں
- کیا گلہ اس کا جو میرا دل گیا
- کچھ لگی دل کی بجھا لوں تو چلے جائیے گا
- کھینچی ہے تصور میں تصویر ہم آغوشی
- کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کاشانہ ترا اور جلوہ خانہ ترا
- کاش مری جبین شوق سجدوں سے سرفراز ہو
- کبھی یہاں لیے ہوئے کبھی وہاں لیے ہوئے
- کعبے کا شوق ہے نہ صنم خانہ چاہئے
- جستجو کرتے ہی کرتے کھو گیا
- عشق کے آثار ہیں پھر غش مجھے آیا دیکھو
- ہم میکدے سے مر کے بھی باہر نہ جائیں گے
- ہلاک تیغ جفا یا شہید ناز کرے
- گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
- غمزہ پیکان ہوا جاتا ہے
- دل لیا جان لی نہیں جاتی
- داروئے درد نہاں راحت جانی صنما
- چھڑا پہلے پہل جب ساز ہستی
- بت بھی اس میں رہتے تھے دل یار کا بھی کاشانہ تھا
- بتائے دیتی ہے بے پوچھے راز سب دل کے
- برہمن مجھ کو بنانا نہ مسلماں کرنا
- اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
- اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سراپا دل کر دے
- اللہ رے فیض ایک جہاں مستفید ہے
- اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے
Some or all works by this author are now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |