اس کے کوچے میں بہت رہتے ہیں دیوانے پڑے
اس کے کوچے میں بہت رہتے ہیں دیوانے پڑے
ان میں دیکھا تو میاں رنگیںؔ نہ پہچانے پڑے
میں سفر میں ہوں اور اس کو غیر بہکاتے ہیں واں
مجھ کو اب کاغذ کے گھوڑے یاں سے دوڑنے پڑے
ساقیا تیری نگاہ ناز کے باعث سے دیکھ
جام و خم اوندھے ہیں اور تلپٹ ہیں پیمانے پڑے
دوستوں کے کہنے سننے سے مجھے مجبور ہو
زخم دل جراح کو اے وائے دکھلانے پڑے
اب غزل اک اور رنگیںؔ تو بدل کر لکھ ردیف
قافیہ پھر یہ مکرر تجھ کو کہہ جانے پڑے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |