اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
اس گلی میں جو ہم کو لائے قدم
پاؤں پڑتے ہی لڑکھڑائے قدم
وائے قسمت میں رہ گیا پیچھے
اور رفیقوں نے جلد اٹھائے قدم
ہر قدم پر ہے لاش کشتے کی
اب کہاں اس گلی میں جائے قدم
تیرے کوچے سے آئے جو ان کے
اپنی آنکھوں سے میں لگائے قدم
اشک خونی سے میرے اس کو میں
نخل مرجاں ہیں نقش ہائے قدم
کاروان عدم کدھر کو گیا
مطلق آتی نہیں صدائے قدم
پیشتر منزل فنا سے نہیں
وادی ما و من میں جائے قدم
مصحفیؔ سالکان عشق کا ہے
ایسی منزل پہ انتہائے قدم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |