اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
اس گوشۂ عزلت میں تنہائی ہے اور میں ہوں
معشوق تصور سے یکجائی ہے اور میں ہوں
یا گھر سے قدم میرا باہر نہ نکلتا تھا
یا شہر کی گلیوں میں رسوائی ہے اور میں ہوں
جس دشت میں ناقے کا گزرا نہ قدم ہرگز
اس دشت میں مجنوں سا سودائی ہے اور میں ہوں
ناصح کی نہ میں مانوں ہم دم کی نہ کچھ سمجھوں
اس عشق و محبت میں خود آرائی ہے اور میں ہوں
ہر چند جنون عشق ہوتا ہے خرد دشمن
اے مصحفیؔ اس پر بھی دانائی ہے اور میں ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |