اشک آ آ کے مری آنکھوں میں تھم جاتے ہیں
اشک آ آ کے مری آنکھوں میں تھم جاتے ہیں
جب وہ کہتے ہیں ابھی تو نہیں ہم جاتے ہیں
سکہ اپنا نہیں جمتا ہے تمہارے دل پر
نقش اغیار کے کس طور سے جم جاتے ہیں
کوئی دم کا ہی دمامہ ہے نہیں دم ہمدم
پاس انفاس نہیں دم میں یہ دم جاتے ہیں
مرگ عشاق نہیں زندۂ جاوید ہوئے
یار سے ہونے ہم آغوش و بہم جاتے ہیں
اس جفا کیش کو ہے آج تلاش عشاق
شوق دیدار میں مشتاق ستم جاتے ہیں
ہند کے خاک بسر ساقیؔ ہیں اہل باطن
کعبۂ دل میں پئے طوف حرم جاتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |