اشک گلگوں کو نہ خون شہدا کو دیکھا
اشک گلگوں کو نہ خون شہدا کو دیکھا
شوخ جیسا کہ ترے رنگ حنا کو دیکھا
تجھ کو دیکھا نہ ترے ناز و ادا کو دیکھا
تیری ہر طرز میں اک شان خدا کو دیکھا
ہیں تجھے دیکھ کے حوران بہشتی بیتاب
یا ترے کشتۂ انداز و ادا کو دیکھا
تشنۂ آب دم تیغ نے پینا کیسا
آنکھ اٹھا کر نہ کبھی آب بقا کو دیکھا
مجھے کافر ہی بتانا ہے یہ واعظ کمبخت
میں نے بندوں میں کئی بار خدا کو دیکھا
نکہت زلف معنبر کو چمن میں پایا
آتے جاتے ترے کوچے میں صبا کو دیکھا
مائلؔ ایمان ہے بالغیب ہمیں لوگوں کا
کہ پیمبر کو ہے دیکھا نہ خدا کو دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |