الفت نہ کروں گا اب کسی کی

الفت نہ کروں گا اب کسی کی
by رند لکھنوی

الفت نہ کروں گا اب کسی کی
دشمن ہوا جس سے دوستی کی

حالت کہوں اپنی بے خودی کی
دل دے کے سنو جو میرے جی کی

اول اول بھلائیاں کیں
آخر آخر بہت بری کی

مصروف ہے سینہ کوبی میں دل
آتی ہے صدا دھڑا دھڑی کی

الفت پہ تیری خاتمہ ہے
اب لے لے قسم تو عاشقی کی

کرتے رہے اختراع آپھی
تقلید نہ کی کبھی کسی کی

رونے پہ میرے ہنستے ہیں آپ
ہنس لیجئے بات ہے ہنسی کی

کیوں کر نہ فریفتہ ہو انساں
تن حور کا شکل ہے پری کی

شیریں دہنو نہیں ہے زیبا
تم باتیں کرو نہ پھیکی پھیکی

دیوانہ ہوا ہوں اک پری کا
تقصیر یہ ہے تو واقعی کی

بے یار ہے دل کباب ساقی
تکلیف نہ کر تو مے کشی کی

آنکھیں لڑیں تجھ سے میں ہوا قتل
ان ترکوں نے جنگ زرگری کی

کرنے دو بدی جو کرتے ہیں غیر
سنتا نہیں رندؔ وہ کسی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse