الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی

الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
by گویا فقیر محمد

الفت یہ چھپائیں ہم کسی کی
دل سے بھی کہیں نہ اپنی جی کی

جانے وہ کیا کسی کی جی کی
جس کو الفت نہ ہو کسی کی

خواہش نہ بر آئی اپنی جی کی
ہم نے کس کس کی دوستی کی

اچھی نہیں شرح عاشقی کی
پوچھو نہ اجی کسی کی جی کی

یہ روئے کہ نامہ بہہ کے پہنچا
اشکوں نے ہمارے قاصدی کی

سرخی مگر اس کے لب کی دیکھی
رنگت ہے سفید آرسی کی

عاشق تھے وہ ہم کہ بعد اپنے
مٹی ہی خراب عاشقی کی

اے ابر شب فراق سچ کہہ
روتے کٹتی ہے شب کسی کی

دل زلف رسا تلک تو پہنچا
اتنی بختوں نے رہبری کی

بجلی چمکی تو ابر رویا
یاد آ گئی کیا ہنسی کسی کی

ہم کسی کی گلی کی راہ بھولے
جو خضر نے بھی نہ رہبری کی

دل کو مرے خاک میں ملایا
دلبر نے خوب دلبری کی

سوزش مرے دل کی دیکھ اے ماہ
کر سیر اس برج آتشی کی

وہ طفل نصیری آئے شاید
قسمیں دوں مرتضیٰ علی کی

گردن زدنی تھی شمع سرکش
کیوں اس کی گلی سے ہم سری کی

بس رکھ دیا خط میں برگ سوسن
جب لکھ نہ سکے صفت مسی کی

ٹھکرا کے چلی جبیں کو میرے
قسمت کے لکھے نے یاوری کی

یہ رشک ہے منہ جو یار دیکھے
صورت دیکھوں نہ آرسی کی

بھولا تھا میں راہ کوئے قاتل
تو نے اے موت رہبری کی

اس کے گردن تلک نہ پہنچا
اے دست دراز کوتہی کی

دل کو پالا بغل میں تو نے
گویا دشمن سے دوستی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse