امت تھی نبیؐ کی کہ یہ کفار حسینا

امت تھی نبیؐ کی کہ یہ کفار حسینا
by میر تقی میر
313526امت تھی نبیؐ کی کہ یہ کفار حسینامیر تقی میر

امت تھی نبیؐ کی کہ یہ کفار حسینا
تو سبط تھا اس کا کہ گنہگار حسینا
بے ہیچ لیا جی سے تجھے مار حسینا
یہ دیں ہے تو ہم پہنیں گے زنار حسینا

یوں اہل حرم کہتے ہیں وارث نہیں سر پر
جو تیرے تلف ہوگئے آباد رہے گھر
رکھتے تھے توقع کہ جواں سال ہے اکبر
سو کھا گئی اس کو بھی وہ تلوار حسینا

اصغر نہ ہوا تھا ابھی امید کی جاگہ
تھا طفل نہ تھا نیک و بد دہر سے آگہ
سو اس کو بھی اک تیر لگا آن کے ناگہ
سجاد جو باقی ہے سو بیمار حسینا

قاسم پہ کبھی اپنی نظر پڑتی تھی جاکر
کہتے تھے اسے سونپے گا شہ ہم کو بلاکر
سو آگے ہی تجھ سے وہ گیا سر کو کٹاکر
کیا روئیے کوئی نہیں غم خوار حسینا

ہر چند کہ یاں سے وہ بہت دور مکاں تھا
پر ترک وطن کرتے ہی ہنگامہ عیاں تھا
تو آن اترتا تھا جہاں اور سماں تھا
بے ڈھب تھی تبھی چرخ کی رفتار حسینا

گریاں در و دیوار تھے ہنگام سفر کے
ہم چشم تھے پاؤں کے اثر دیدۂ تر کے
دامن میں ترے دست زناں لوگ تھے گھر کے
کچھ خوب نہ تھے پہلے ہی آثار حسینا

یاں تو تھا اگرچند بہت مردم کم سے
پر بادیہ آباد ہوا تیرے قدم سے
اب تو ہے جہاں واں تئیں بے فاصلہ ہم سے
سرہاے بریدہ کا ہے بازار حسینا

کیا خویش و برادر ترے کیا یاور و انصار
آگے ہی ترے کر گئے سب رخت سفر بار
گھر لوٹ لیا سارا نہ آدم ہے نہ یک تار
ہو کون سیہ پوش و عزادار حسینا

وارث جو کوئی ہو تو لگے اس کے جگر کو
جلنا نہ سکے دیکھ وہ اس طرح سے گھر کو
یوں خوش نہ کرے لوگوں کی عریانی سر کو
سو غیرخدا کون ہے ستار حسینا

میدان کی سب خاک کو ہم چھان کے دیکھا
تب لاشہ ترا دیر میں پہچان کے دیکھا
سو جسم کو بے سر ترے اب آن کے دیکھا
جی ہی میں رہی خواہش دیدار حسینا

یوں خاک ملے خوں میں ترا سامنے سونا
پھر طاقت رفتار کا پاؤں میں نہ ہونا
کہیے بھی جو بیٹے کے تئیں ایک ہو رونا
ہیں اس کو تو آزار پر آزار حسینا

مرنا ہو میسر تو کریں ہم تگ و دو بھی
ہوں اپنوں کی باتیں تو سنی جاتی ہیں سو بھی
پتھر بھی کیا دل کے تئیں ہم نے پہ تو بھی
اٹھتی نہیں یہ سختی گفتار حسینا

کیا قہر ہے ہر پیر و جواں خستہ پڑا ہو
بیٹا جو رہا ہو سو بندھے ہاتھ کھڑا ہو
تو قتل ہوئے پر بھی زمیں میں نہ گڑا ہو
ہم ایسے ستم کے ہوں سزاوار حسینا

آنکھوں کے مندے تیرے ستم سخت ہوا ہے
سر ننگے ہیں سب کون سا پردہ وہ رہا ہے
ناموس نبیؐ قید ہو لوگوں میں کھڑا ہے
دے کھینچ کوئی بیچ میں دیوار حسینا

لیتے ہیں ترا نام جو سب شور و بکا کر
پوچھے ہے سکینہ تجھے ہر ایک سے آکر
دلجوئی کرے کون اسے پاس بلاکر
ہم ایک مصیبت میں گرفتار حسینا

کیوں بیٹے بھتیجے سبھی یوں جاویں نہ مارے
کس طور تلف ہوویں طرفدار نہ سارے
توسرپہ سلامت رہے کیونکرکے ہمارے
ہونا تو ہمیں دشت میں تھا خوار حسینا

یہ جور کسو مذہب و ملت میں نہ دیکھا
یہ طور جو دیکھا کسو صحبت میں نہ دیکھا
یہ حال کسو کی بھی ہزیمت میں نہ دیکھا
مارے بھی پڑا کرتے ہیں سردار حسینا

کس واسطے سب روے زمیں لال ہوا ہے
کاہے کو ترے باغ کا یہ حال ہوا ہے
کیوں خون ترا خاک سا پامال ہوا ہے
تھا تو تو سبھوں کا گل دستار حسینا

کیا حال کہے یاں کے کوئی جور و جفا کا
خوں بسکہ گرا خاک کے اوپر شہدا کا
اٹھ سیر تو کر تو بھی تنک رنگ ہوا کا
ہر خار و خس دشت ہے گلزار حسینا

رنج ایک جو ہووے تو ہر اک اس کو اٹھا لے
جی کوئی سنبھالے کہ سکینہ کو سنبھالے
تو کاشکے اب سب کے تئیں پاس بلا لے
اس جینے سے ہم آئے ہیں بیزار حسینا

جوں ہم لٹے دشمن کو بھی حق یوں ہی لٹاوے
پردے کے تئیں اس کے بھی یک بار اٹھاوے
کاہے سے کوئی منھ کے تئیں آہ چھپاوے
چھوٹا نہیں ہے گھر میں تو اک تار حسینا

نقصان ہوا تیرے تئیں جان کا عائد
کچھ سمجھے نہ اس قوم سیہ رو کے عقائد
پھر کاٹے لیے جاتے ہیں سر کو جو یہ شاید
ہے تجھ سے ابھی ان کو سروکار حسینا

کیا کہیے ترے مر گئے عزت ہے نہ آدر
سر پر نہ رہا معجر و چھوٹی نہیں چادر
نے یار نہ داور نہ کوئی خویش و برادر
کس سے کریں ہم درد دل اظہار حسینا

میداں میں عزیزوں کے لہو دیکھے ہیں جاری
کس طرح سے موقوف کریں نالہ و زاری
کرتے ہیں بہت ضبط پہ جوں ابر بہاری
تھمتے نہیں یہ دیدۂ خوں بار حسینا

کہتے تھے ادھر کو نہ کسی طرح پڑے راہ
سو آئے چلے سیدھے یہیں خواہش اللہ
تقدیر کا سمجھا نہ گیا ہم سے فریب آہ
کچھ ہووے ہی گا اس میں بھی اسرار حسینا

یہ آتش غم کس سے کہیں جا کہ بجھادے
شعلے سے جو اٹھتے ہیں جگر میں سے بٹھادے
یوں جلتے رہیں کب تئیں ہم سب کو جلادے
کاش آکے کوئی ابر شرربار حسینا

انواع ستم ہم نے ترے پیچھے سہا ہے
کچھ تو بھی تو کہہ کاہے کو منھ موند رہا ہے
بے رحم کسی شخص نے کیا تجھ سے کہا ہے
مت بولیو ان لوگوں سے زنہار حسینا

اس بگڑے ہوئے حال کا مشکل ہے سنورنا
کیا نقل کریں خوب ہے اس جینے سے مرنا
جن لوگوں سے تھا ننگ ہمیں بات کا کرنا
اب ان کو سخن ہم سے ہوا عار حسینا

سب حال کہیں تنگی وقت آہ جو رہ دے
تجھ پاس رہیں فرصت اگر روز سیہ دے
اب تو ہی کچھ اس باب میں سجاد سے کہہ دے
ہم شام کے جانے کو ہیں تیار حسینا

بے طاقتی و ضعف بدن گرچہ عیاں ہے
ناچار ولے ساتھ ہمارے وہ رواں ہے
انصاف سے ٹک دیکھے سو وہ چشم کہاں ہے
عابد کے کف پا و سر خار حسینا

ہوتا نہیں اب منھ پہ یہاں خاک ملے کچھ
تسکیں ہو دلوں کو جو زباں تیری ہلے کچھ
سرکیں نہ قدم گاہ سے اپنا جو چلے کچھ
جاتے ہیں تجھے چھوڑ کے ناچار حسینا

ماتم بھی ترا کریے جو فرصت دے زمانہ
عزت سے ترا خاک سے بن آوے اٹھانا
سو ہم نے تو دل کھول کے رونا بھی نہ جانا
وقفہ نہیں دیتے یہ ستمگار حسینا

یہ حرف تھے جو شور ہوا چلنے کا ناگاہ
پھر میرؔ وہ قیدی بھی گئے واں سے بھر اک آہ
ہر غم زدہ کے لب پہ چلے جاتے ہوئے راہ
آتا تھا ہر اک گام کئی بار حسینا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.