امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
امید ٹوٹی ہوئی ہے میری جو دل مرا تھا وہ مر چکا ہے
جو زندگانی کو تلخ کر دے وہ وقت مجھ پر گزر چکا ہے
اگرچہ سینے میں سانس بھی ہے نہیں طبیعت میں جان باقی
اجل کو ہے دیر اک نظر کی فلک تو کام اپنا کر چکا ہے
غریب خانے کی یہ اداسی یہ نا درستی نہیں قدیمی
چہل پہل بھی کبھی یہاں تھی کبھی یہ گھر بھی سنور چکا ہے
یہ سینہ جس میں یہ داغ میں اب مسرتوں کا کبھی تھا مخزن
وہ دل جو ارمان سے بھرا تھا خوشی سے اس میں ٹھہر چکا ہے
غریب اکبر کے گرد کیوں میں خیال واعظ سے کوئی کہہ دے
اسے ڈراتے ہو موت سے کیا وہ زندگی ہی سے ڈر چکا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |