انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو

انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو
by عزیز لکھنوی

انتہائے عشق ہو یوں عشق میں کامل بنو
خاک ہو کر بھی نشان سرحد منزل بنو

میرے شکوؤں پر یہ کہنا رحم کے قابل بنو
مدعا یہ ہے کہ اپنے حال سے غافل بنو

غرق ہو کر رول لو موتی خود اپنے واسطے
ڈوب کر ابھرو تو اوروں کے لیے ساحل بنو

انجمن کیسی تم اپنی ذات سے ہو انجمن
گوشۂ خلوت میں بھی بیٹھو تو اک محفل بنو

حسن خود بیں معجزات عشق کا قائل نہیں
قطرہ ہائے اشک خونیں جمع ہو کر دل بنو

ساتھ آزادی کے خود داری بھی رہنا چاہئے
بحر بے پایاں کبھی لب خشکئ ساحل بنو

علم کا دورہ لہو کے ساتھ رگ رگ میں رہے
جوہر قابل اگر ہو قوت عامل بنو

شرم سے تم کو سمٹنا ہے تو سمٹو حسن سے
دل میں بن جاؤ سویدا پتلیوں میں تل بنو

ربط باطن کیا سنو تفصیل اس اجمال کی
ہم سراپا درد ہوں اور تم سراپا دل بنو

جلنے والو تا بہ امکاں ضبط سوز غم کرو
آگ جب بھڑکے چراغ سرحد منزل بنو

کچھ دنوں بیٹھو سر قبر عزیزؔ بے نوا
خانقاہوں میں بہت دشوار ہے کامل بنو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse