انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے
انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے
نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے
مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر
دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے
کچھ ما و شما میں فرق نہیں کچھ شاہ و گدا میں بھید نہیں
ہم بادہ کشوں کی محفل میں ہر جام بکف جم ہوتا ہے
دیوانوں کے جبہ و دامن کا اڑتا ہے فضا میں جو ٹکڑا
مستقبل ملت کے حق میں اقبال کا پرچم ہوتا ہے
منصور جو ہوتا اہل نظر تو دعویٔ باطل کیوں کرتا
اس کی تو زباں کھلتی ہی نہیں جو راز کا محرم ہوتا ہے
تا چند سہیلؔ افسردۂ غم کیا یاد نہیں تاریخ حرم
ایماں کے جہاں پڑتے ہیں قدم پیدا وہیں زمزم ہوتا ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |