اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
اندوہ سے ہوئی نہ رہائی تمام شب
مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب
جب میں شروع قصہ کیا آنکھیں کھول دیں
یعنی تھی مجھ کو چشم نمائی تمام شب
چشمک چلی گئی تھی ستاروں کی صبح تک
کی آسماں نے دیدہ درائی تمام شب
بخت سیہ نے دیر میں کل یاوری سی کی
تھی دشمنوں سے اس کو لڑائی تمام شب
بیٹھے ہی گزری وعدے کی شب وہ نہ آ پھرا
ایذا عجب طرح کی اٹھائی تمام شب
سناہٹے سے دل سے گزر جائیں سو کہاں
بلبل نے گو کی نالہ سرائی تمام شب
تارے سے میری پلکوں پہ قطرے سرشک کے
دیتے رہے ہیں میرؔ دکھائی تمام شب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |