انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
انسان ہوس پیشہ سے کیا ہو نہیں سکتا
مجبور ہے اس سے کہ خدا ہو نہیں سکتا
وہ عقدہ مرے کام میں تقدیر نے ڈالا
جو ناخن تدبیر سے وا ہو نہیں سکتا
دہشت سے کوئی نام بھی لیتا نہیں ورنہ
اس بزم میں کیا ذکر مرا ہو نہیں سکتا
کیوں کر ہو حریص ستم عشق کی سیری
غم رزق مقدر ہے سوا ہو نہیں سکتا
دل کیوں کہ خدنگ نگہ یار سے بچ جائے
یہ تیر قضا کا ہے خطا ہو نہیں سکتا
تمکیں سے نہ دیکھے جو کبھی آئنہ جھک کر
وہ مرتکب شرم و حیا ہو نہیں سکتا
ماتم زدہ کے ہاتھ سے گھبرا نہ شب وصل
عادت ہے کہ سینے سے جدا ہو نہیں سکتا
کہنے پہ چلے دل کے عبث یہ بھی نہ جانا
گمراہ کبھی راہنما ہو نہیں سکتا
ہے چال تری باعث آسودگیٔ حلق
خجلت کے سبب حشر بپا ہو نہیں سکتا
یہ درد ہے تیرا ہی کہ ہے جان سے شیریں
ہر درد میں ظالم یہ مزا ہو نہیں سکتا
اے طائر جاں شکوۂ تکلیف قفس کیوں
کیا تو قفس تن سے رہا ہو نہیں سکتا
غیرت ہے جو مجھ میں تو وہ کہتے ہیں سر بزم
پروانے سے جو کام ہوا ہو نہیں سکتا
وہ غم زدہ بنتے ہیں مری نعش پہ لیکن
دل خوش ہے کہ لب نوحہ سرا ہو نہیں سکتا
ہم زمزمہ سنج ارنی بن نہیں سکتے
تو بام پہ کیا جلوہ نما ہو نہیں سکتا
میں اس قدر اچھا تو نہیں ہوں کہ بہر آؤں
منصور نے دعویٰ جو کیا ہو نہیں سکتا
میں اس نگہ ناز کا محکوم ہوں سالکؔ
وابستۂ احکام قضا ہو نہیں سکتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |