انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف
انہیں نگاہ ہے اپنے جمال ہی کی طرف
نظر اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
توجہ اپنی ہو کیا فن شاعری کی طرف
نظر ہر ایک کی جاتی ہے عیب ہی کی طرف
لکھا ہوا ہے جو رونا مرے مقدر میں
خیال تک نہیں جاتا کبھی ہنسی کی طرف
تمہارا سایہ بھی جو لوگ دیکھ لیتے ہیں
وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے پری کی طرف
بلا میں پھنستا ہے دل مفت جان جاتی ہے
خدا کسی کو نہ لے جائے اس گلی کی طرف
کبھی جو ہوتی ہے تکرار غیر سے ہم سے
تو دل سے ہوتے ہو در پردہ تم اسی کی طرف
نگاہ پڑتی ہے ان پر تمام محفل کی
وہ آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتے کسی کی طرف
نگاہ اس بت خود بیں کی ہے مرے دل پر
نہ آئنہ کی طرف ہے نہ آرسی کی طرف
قبول کیجیئے للہ تحفۂ دل کو
نظر نہ کیجیئے اس کی شکستگی کی طرف
یہی نظر ہے جو اب قاتل زمانہ ہوئی
یہی نظر ہے کہ اٹھتی نہ تھی کسی کی طرف
غریب خانہ میں للٰلہ دو گھڑی بیٹھو
بہت دنوں میں تم آئے ہو اس گلی کی طرف
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف
جو گھر میں پوچھے کوئی خوف کیا ہے کہہ دینا
چلے گئے تھے ٹہلتے ہوئے کسی کی طرف
ہزار جلوۂ حسن بتاں ہو اے اکبرؔ
تم اپنا دھیان لگائے رہو اسی کی طرف
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |