ان کا جلوہ نہیں دیکھا جاتا

ان کا جلوہ نہیں دیکھا جاتا
by حسن بریلوی

ان کا جلوہ نہیں دیکھا جاتا
دیکھ دیکھا نہیں دیکھا جاتا

قتل کرنے کی وہ جلدی تھی تمہیں
اب تڑپنا نہیں دیکھا جاتا

چشم خوں بار خدا رحم کرے
تیرا رونا نہیں دیکھا جاتا

الفت ان کی نہیں چھوڑی جاتی
حال دل کا نہیں دیکھا جاتا

دیکھنے ہی کے لئے ہیں آنکھیں
ان سے کیا کیا نہیں دیکھا جاتا

پر تری برق تجلی کا جمال
خوب دیکھا نہیں دیکھا جاتا

نامہ پورا وہ حسنؔ کیا دیکھیں
نام پورا نہیں دیکھا جاتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse