ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں
یہ بھی سہی تو ہم کو مجال سخن کہاں
اک بوند ہے لہو کی مگر بے قرار ہے
دل کو چھپائے زلف شکن در شکن کہاں
تمکین خامشی نے انہیں بت بنا دیا
سب اس گمان میں ہیں کہ ان کے دہن کہاں
وہ شام وعدہ محو ہیں آرائشوں میں اور
پہونچا ہے لے کے مجھ کو مرا سوء ظن کہاں
بیخودؔ نہ کیوں ہوں دوریٔ استاد ہے ملول
سوچو تو مارواڑ کہاں ہے دکن کہاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |