ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
تو یہ سکہ ہمارا چل جاتا
شمع تھا یار جو پگھل جاتا
اور میں پروانہ تھا جو جل جاتا
کیا کہیں سیر کو وہ گل نہ گیا
باغ کا رنگ ہی بدل جاتا
گور ہی سے نہ بن پڑی ورنہ
اژدہا تو ہمیں نگل جاتا
اب تو پستاں نکالئے صاحب
اتنے سن میں انار پھل جاتا
صدمے گھیرے ہیں ہجر میں دم کو
سانس پاتا تو یہ نگل جاتا
کیا گراتا سخیؔ یہ چرخ مجھے
یا علیؔ کہتا اور سنبھل جاتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |