Author:سخی لکھنوی
سخی لکھنوی (1813 - 1876) |
اردو شاعر |
تصانیف
editغزل
edit- زلف شب رنگ جو بنائی ہے
- یوں پریشاں کبھی ہم بھی تو نہ تھے
- یہ تو معلوم کہ پھر آئیے گا
- ان کی چٹکی میں دل نہ مل جاتا
- تم اگر دو نہ پیرہن اپنا
- سخیؔ سے چھوٹ کر جائیں گے گھر آپ
- رخ روشن پہ صفا لوٹ گئی
- رخ روشن دکھائیے صاحب
- رخ پر ہے ملال آج کیسا
- قاصد ترے بار بار آئے
- قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
- پھر الجھتے ہیں وہ گیسو کی طرح
- پہلو میں بیٹھ کر وہ پاتے کیا
- نسبت وہی ماہ آسماں سے
- ناخوش جو ہو گل بدن کسی کا
- نہ بچپن میں کہو ہم کو کڑی بات
- منکر بت ہے یہ جاہل تو نہیں
- ماہ نو پردۂ سحاب میں ہے
- جی جائے مگر نہ وہ پری جائے
- عشق کرنے میں دل بھی کیا ہے شوخ
- عشق ہے یار کا خدا حافظ
- ان کو نفرت اسے کیا کہتے ہیں
- ہم پہ جور و ستم کے کیا معنی
- ہے چمن میں رحم گلچیں کو نہ کچھ صیاد کو
- گفتگو ہو دبی زبان بہت
- گھر میں ساقیٔ مست کے چل کے
- دولہن بھی اگر بن کے آئے گی رات
- دل اسے دے دیا سخیؔ ہی تو ہے
- دل ہی میرا فقط ہے مطلب کا
- دم یار تا نزع بھر لیجئے
- چشم مے گوں وہاں شراب لذیذ
- بہار آ کر جو گلشن میں وہ گائیں
- بام پر آتا ہے ہمارا چاند
- اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |