اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
اور اب کیا کہیں کہ کیا ہیں ہم
آپ ہی اپنے مدعا ہیں ہم
اپنے عاشق ہیں اپنے وارفتہ
آپ ہی اپنے دل ربا ہیں ہم
آپ ہی خانہ آپ خانہ خدا
آپ ہی اپنی مرحبا ہیں ہم
عشق جو دل میں درد ہو کے رہا
خود اسی درد کی دوا ہیں ہم
راز دل کی طرح زمانے میں
تھے چھپے آج برملا ہیں ہم
کیوں نہ ہو عرش پر دماغ اپنا
کس کے کوچے کی خاک پا ہیں ہم
ہر کوئی آشنا سمجھتا ہے
اور یاں کس کے آشنا ہیں ہم
ابتدا کی بھی ابتدا ہیں ہم
انتہا کی بھی انتہا ہیں ہم
ہم تو بندے نظامؔ ان کے ہیں
وہ بجا کہتے ہیں "خدا ہیں ہم"
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |