او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
او میاں بانکے ہے کہاں کی چال
تم جو چلتے ہو نت یہ بانکی چال
ناز رفتار یہ نہیں دیکھا
ہم نے دیکھی ہے اک جہاں کی چال
لاکھوں پامال ناز ہیں ان کے
کون سمجھے ہے ان بتاں کی چال
کبک کو دیکھ کر یہ کہنے لگا
یہ چلے ہے ہمارے ہاں کی چال
رکھ کے شطرنج غائبانۂ عشق
تم چلے اک تو امتحاں کی چال
تس پہ دشمن ہمارے جی کی ہوئی
کجیٔ پیل آسماں کی چال
مصحفیؔ بھر چلا وہ ریش و بروت
ہوئے جس پیر ناتواں کی چال
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |