اٹھا کے ناز سے دامن بھلا کدھر کو چلے
اٹھا کے ناز سے دامن بھلا کدھر کو چلے
ادھر تو دیکھیے بہر خدا کدھر کو چلے
مری نگاہوں میں دونوں جہاں ہوئے تاریک
یہ آپ کھول کے زلف دوتا کدھر کو چلے
ابھی تو آئے ہو جلدی کہاں ہے جانے کی
اٹھو نہ پہلو سے ٹھہرو ذرا کدھر کو چلے
خفا ہو کس پہ بھنویں کیوں چڑھی ہیں خیر تو ہے
یہ آپ تیغ پہ دھر کر جلا کدھر کو چلے
مسافران عدم کچھ کہو عزیزوں سے
ابھی تو بیٹھے تھے ہے ہے بھلا کدھر کو چلے
چڑھی ہیں تیوریاں کچھ ہے مژہ بھی جنبش میں
خدا ہی جانے یہ تیغ ادا کدھر کو چلے
گیا جو میں کہیں بھولے سے ان کے کوچے میں
تو ہنس کے کہنے لگے ہیں رساؔ کدھر کو چلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |