اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
اٹھ چکا دل مرا زمانے سے
اڑ گیا مرغ آشیانے سے
دیکھ کر دل کو مڑ گئی مژگاں
تیر خالی پڑا نشانے سے
چشم کو نقش پا کروں کیونکر
دور ہو خاک آستانے سے
ہم نے پایا تو یہ صنم پایا
اس خدائی کے کارخانے سے
تیری زنجیر زلف سے نکلے
یہ توقع نہ تھی دوانے سے
اے فغاںؔ درد دل سنوں کب تک
اڑ گئی نیند اس فسانے سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |