اپنا اپنا رنگ دکھلاتی ہیں جانی چوڑیاں
اپنا اپنا رنگ دکھلاتی ہیں جانی چوڑیاں
آسمانی ارغوانی زعفرانی چوڑیاں
اک ذرا رنگ نزاکت بھی رہی مد نظر
دھان پان اے جان تم ہو پہنو دھانی چوڑیاں
داغ کھا کھا کر ہزاروں دل لہو ہو ہو گئے
کل کھلی پہنیں جو تم نے ارغوانی چوڑیاں
ہاتھ کھینچے کیوں نہ آرائش سے وہ نازک بدن
ساعد نازک پہ کرتی ہیں گرانی چوڑیاں
عاشقوں کے زخم رو رو کر لہو ہنس ہنس پڑیں
مہندی ملتی ہو تو پہنو زعفرانی چوڑیاں
رنگ مہندی کا تری دست نگارں میں نہیں
کر رہی ہیں اے پری آتش فشانی چوڑیاں
دیکھنے والے تمہارے دل بچائیں کس طرح
آفت جاں تم بلاے ناگہانی چوڑیاں
میرے ماتم میں اتاریں آ کے میری قبر پر
دے گئی یوں مجھ کو وہ اپنی نشانی چوڑیاں
چار دن آرائشوں سے ہاتھ اٹھانا چاہئے
سوگ میں عاشق کے لازم ہیں بڑھانی چوڑیاں
عید کو ہے نازنینوں صحت ناظمؔ کا جشن
ہوں نئی آرائشیں اتریں پرانی چوڑیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |