اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں
اپنا رفیق و آشنا غیر خدا کوئی نہیں
رنج و محن میں غم زدا غیر خدا کوئی نہیں
پوچھا جو میں حکیم سے علت کن فکاں ہے کون
سوچ کے اس نے یہ کہا غیر خدا کوئی نہیں
کعبے کا شب کو میں جو جا حلقۂ در ہلا دیا
آئی صدا یہ "اندر آ غیر خدا کوئی نہیں"
عارف اگر بہ چشم غور آئینۂ جہاں کے بیچ
دیکھے تو سمجھے رونما غیر خدا کوئی نہیں
گرچہ جہاں ہے ماسوا ذات کے اس کی مصحفیؔ
سوچیے پھر تو ماسوا غیر خدا کوئی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |