اپنی تجلیوں سے معمور ہو گئے ہم

اپنی تجلیوں سے معمور ہو گئے ہم
by عابد علی عابد

آئی سحر قریب تو میں نے پڑھی غزل
جلنے لگے ستاروں کے بجھتے ہوئے کنول

بیتاب ہے جنوں کہ غزل خوانیاں کروں
خاموش ہے خرد کہ نہیں بات کا محل

راہوں میں جوئے خوں ہے رواں مثل موج مے
ساقی یقیں نہ ہو تو ذرا میرے ساتھ چل

ہم رند خاک و خوں میں اٹے ہاتھ بھی کٹے
نکلے نہ اے بہار ترے گیسوؤں کے بل

کچھ بجلیوں کا شور ہے کچھ آندھیوں کا زور
دل ہے مقام پر تو ذرا بام پر نکل

اب ترک دوستی ہی تقاضا ہے وقت کا
اے یار چارہ ساز مری آگ میں نہ جل

اے التفات یار مجھے سوچنے تو دے
جینے کا ہے مقام کہ مرنے کا ہے محل

دل پر ہے ایسا بوجھ کہ کھلتی نہیں زباں
آندھی ہے ایسی تیز کہ جلتا نہیں کنول

کیسے دئے جلائے غم روزگار نے
کچھ اور جگمگاتے غم یار کے محل

فرمان شہریار کی پروا نہیں مجھے
ایمائے عاشقاں ہو تو عابدؔ پڑھے غزل

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse