اپنی پرسش جو ہو ارباب وفا سے پہلے

اپنی پرسش جو ہو ارباب وفا سے پہلے
by میر کلو عرش

اپنی پرسش جو ہو ارباب وفا سے پہلے
مانگیے دولت دیدار خدا سے پہلے

جھک گیا وہ شہ حسن آ کے گدا سے پہلے
خم ہوئی زلف دوتا قد دوتا سے پہلے

چشم مشتاق لڑی چشم دوتا سے پہلے
سامنا ہوگا بلاؤں کا بلا سے پہلے

تو ہر اک اسفل و اعلیٰ کا ہے رزاق کریم
استخواں سگ کو پہنچتا ہے ہما سے پہلے

بعد ہو چہرۂ جاناں کے مقابل اے چرخ
چاند منہ اس کے ملائے کف پا سے پہلے

بعد بھی ذکر کیا ہو جو وفاداری کا
سر قلم کیجیے شمشیر جفا سے پہلے

خون دل ہجر میں پیتا ہوں تو غم کھاتا ہوں
کہ دوا پیتے ہیں بیمار غذا سے پہلے

شوق گل صورت بلبل خطر گلچیں ہے
صبح دم باغ میں جاتا ہوں صبا سے پہلے

غفلت قلب سے زہاد پڑھیں بعد نماز
برہمن سجدہ کرے بت کو خدا سے پہلے

تخت تابوت رواں بھی ہے عجب تخت رواں
شاہ تکیے میں پہنچتا ہے گدا سے پہلے

مثل موسیٰ مجھے غش آئے نہ ہو تم کو حجاب
وعدۂ وصل جو ایفا ہو حیا سے پہلے

شوخ نے مہندی ملی ہاتھ میں میں قتل ہوا
رنگ لائے گا لہو رنگ حنا سے پہلے

پائے قاتل جو پس مرگ بھی ٹھوکر مارے
نذر سر کیجیے تسلیم و رضا سے پہلے

روبرو تیرے ہوا اسفل و اعلیٰ کا ظہور
علم خالق میں تو تھا ارض و سما سے پہلے

کیا بیاں رتبۂ اعلائے علی کو میں کروں
سیر معراج کی محبوب خدا سے پہلے

دستگیری جو ہے بندے کی خدا کو منظور
اٹھتے ہیں دست دعا عرشؔ دعا سے پہلے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse