اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
اخبار میں تو نام مرا چھاپ دیجئے
دیکھو جسے وہ پانیر آفس میں ہے ڈٹا
بہر خدا مجھے بھی کہیں چھاپ دیجئے
چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں
اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے
دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے
سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات
انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے
اس بت کے در پہ غیر سے اکبرؔ نے کہہ دیا
زر ہی میں دینے لایا ہوں جان آپ دیجئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |