اپنے ابرو آئنے میں دیکھ کر بسمل ہوا

اپنے ابرو آئنے میں دیکھ کر بسمل ہوا
by بخش ناسخ
315763اپنے ابرو آئنے میں دیکھ کر بسمل ہوابخش ناسخ

اپنے ابرو آئنے میں دیکھ کر بسمل ہوا
کھینچ کر تلوار اپنا آپ وہ قاتل ہوا

بھاگ کر کب تجھ سے جاں بر کوئی اے قاتل ہوا
اڑ چلا گر ہوش اپنا طائر بسمل ہوا

اب کہاں نالے کہ اس لیلیٰ کا مسکن دل ہوا
تھا جرس جو پیش ازیں وہ ان دنوں محمل ہوا

نام نیک اہل حکومت کو کہاں حاصل ہوا
خلق میں مشہور اک نوشیرواں عادل ہوا

سر سے پا تک ہر صنوبر ہی فقط کیا دل ہوا
دیکھ کر اس سرو قد کو سرو بھی مائل ہوا

اس ادا سے باڑھ دیکھی آپ نے تلوار کی
طائر رنگ حنا بھی طائر بسمل ہوا

دھیان اس کے بند کرنے کا اگر آتا تجھے
کیوں نہ تیرا رخنۂ در میرا چاک دل ہوا

ہے یہ غم جانکاہ خال ابروئے خم دار کا
کعبے میں کاہیدہ ہو کر سنگ اسود دل ہوا

جو یہاں مغلوب ہے عقبیٰ میں غالب ہے وہی
مرکب مقتول ہے اک روز جو قاتل ہوا

دھوئے ہیں دھوبی نے دریا میں جو کپڑے یار کے
آج کوسوں تک معطر دامن ساحل ہوا

دلبری کا جب ہوا اس سرو قامت کو خیال
عضو عضو اپنا وہیں مثل صنوبر دل ہوا

سب کے خالق نے بنائے کاسۂ سر واژگوں
آدمی اس پر بھی پیش آدمی سائل ہوا

بجھ گیا میرا چراغ داغ وصل یار میں
نور مہ نزدیکیٔ خورشید سے زائل ہوا

جو پری رو بیٹھتا ہے آ کے اٹھ سکتا نہیں
اب تو نقش بوریا کا خوب میں عامل ہوا

جذب جنسیت بہم رہنے نہیں دیتا فراق
کل بنا جو جسم خاکی آج گل در گل ہوا

ہائے کس قاتل ادا سے کی شروع اس نے نماز
نکلی جب تکبیر اس کے منہ سے میں بسمل ہوا

کہتے ہیں زاہد مری دیوانگی کو دیکھ کر
بت پرستی کے سبب قہر خدا نازل ہوا

جب تصور یار کا باندھا ہم آپ آئے نظر
سامنے آنکھوں کے آئینہ ہمارا دل ہوا

عاشق بے ننگ سے ہوتا ہے معشوقوں کو ننگ
پیرہن مجنوں کا پھٹ کر پردۂ محمل ہوا

سامنے میرے رہا گر شام سے لے تا سحر
حسن میں گر مثل ماہ چاردہ کامل ہوا

روح ناسخؔ ہے اسی کی روح اقدس پر نثار
بارہا جس کے لیے روح القدس نازل ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.