اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں
اپنے در سے جو اٹھاتے ہیں ہمیں
خاک میں آپ ملاتے ہیں ہمیں
ہے جو منظور جفا در پردہ
منہ وہ غیروں میں دکھاتے ہیں ہمیں
غیر کو پاس بٹھا رکھتے ہیں
جب کبھی آپ بلاتے ہیں ہمیں
گرمیاں غیر کو دکھلا دکھلا
بزم میں آپ جلاتے ہیں ہمیں
شب فرقت میں فلک کے تارے
داغ دل یاد دلاتے ہیں ہمیں
ان کے انداز سخن ہیں معلوم
غیر کو کہہ کے سناتے ہیں ہمیں
پھر کسی گل پہ ہوا دل مائل
داغ تازہ نظر آتے ہیں ہمیں
چھوڑ دیں آپ کی ہم راہی ہم
واہ کیا راہ بتاتے ہیں ہمیں
تو ہمیں راہ بتائے جس سے
غیر وہ راہ بتاتے ہیں ہمیں
عطر گل سے نہیں جب دل بھرتا
اپنا رومال سونگھاتے ہیں ہمیں
شب کو افسانۂ دل کہہ کے اثرؔ
آپ روتے ہیں رلاتے ہیں ہمیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |