اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سراپا دل کر دے
اپنے دیدار کی حسرت میں تو مجھ کو سراپا دل کر دے
ہر قطرۂ دل کو قیس بنا ہر ذرے کو محمل کر دے
دنیائے حسن و عشق مری کرنا ہے تو یوں کامل کر دے
اپنے جلوے میری حیرت نظارے میں شامل کر دے
یاں طور و کلیم نہیں نہ سہی میں حاضر ہوں لے پھونک مجھے
پردے کو اٹھا دے مکھڑے سے برباد سکون دل کر دے
گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی
جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے
اے درد عطا کرنے والے تو درد مجھے اتنا دے دے
جو دونوں جہاں کی وسعت کو اک گوشۂ دامن دل کر دے
ہر سو سے غموں نے گھیرا ہے اب ہے تو سہارا تیرا ہے
مشکل آساں کرنے والے آسان مری مشکل کر دے
بیدمؔ اس یاد کے میں صدقے اس درد محبت کے قرباں
جو جینا بھی دشوار کرے اور مرنا بھی مشکل کر دے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |