اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
اپنے قاصد کو صبا باندھتے ہیں
سچ ہے شاعر بھی ہوا باندھتے ہیں
پھر سر دست مرا خوں ہوگا
پھر وہ ہاتھوں میں حنا باندھتے ہیں
گٹھری پھولوں کی وہ ہو جاتی ہے
جن میں وہ اپنی قبا باندھتے ہیں
اجی دیکھیں دل عاشق تو نہیں
آپ آنچل میں یہ کیا باندھتے ہیں
اے سخیؔ آج تو کچھ خیر نہیں
وہ کمر ہو کے خفا باندھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |