اپنے نالے میں گر اثر ہوتا
اپنے نالے میں گر اثر ہوتا
قطرۂ اشک بھی گہر ہوتا
جن کے نامے کی ہے پہنچ تجھ تک
کاش میں ان کا نامہ بر ہوتا
دل نہ دیتا جو میں تجھے ظالم
کیوں مری جان کا ضرر ہوتا
پھر نہ کرتا ستم کسی پہ اگر
حال سے میرے باخبر ہوتا
خون عشاق کرتے کیوں ناحق
گر بتوں کو خدا کا ڈر ہوتا
کام آتا میں ایک دن پیارے
ربط مجھ سے تجھے اگر ہوتا
کھینچتی فوج خط جو حسن پہ تیغ
سینہ میرا ہی واں سپر ہوتا
سوزؔ کو شوق کعبے جانے کا
ہے بہت پر زیادہ تر ہوتا
شیخ مانند تیرے اس کے پاس
بار برداری کو جو خر ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |