اچھی نبھی بتان ستم آشنا کے ساتھ
اچھی نبھی بتان ستم آشنا کے ساتھ
اب بعد مرگ دیکھیے کیا ہو خدا کے ساتھ
جب سے وہ سن چکے ہیں کہ ہم خواب میں چلے
نیچی نگاہ بھی نہیں کرتے حیا کے ساتھ
یوں گمرہان عشق ہیں رہزن کے ساتھ خوش
گویا کہ ہو لیے ہیں کسی رہنما کے ساتھ
مانگوں دعائے مرگ تو آمیں کہے عدو
اب ان کی بد دعا ہے مرے مدعا کے ساتھ
یوں کہتے ہیں کہ تجھ کو ستائے ہی جائیں گے
گویا کہ مجھ کو عشق ہے اپنی وفا کے ساتھ
غیروں نے بے دلی سے مری پائے مدعا
میں گم ہوا نہ کیوں دل حسرت فزا کے ساتھ
شرمندۂ بتاں نہ ہوئے لاکھ لاکھ شکر
سالکؔ خدا نے ہم کو اٹھایا وفا کے ساتھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |